زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
فهرست کتاب‌‌ لیست کتاب‌ها

پیغمبر اسلام عالمین کے لئے رحمت ہے۔

پیغمبر اسلام عالمین کے لئے رحمت ہے۔

از:مرتضیٰ حسین مطہری

وَما أَرْسَلْناكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعالَمِينَ:اے پیغمبر ہم نے تجھے عالمین کے لئے رحمت ونعمت بناکربھیجاہے۔دنیا کے سبھی لوگ خواہ وہ مومن ہویاکافرسب آپ کی رحمت کی طرف محتاج ہیں ۔کیونکہ آپ نے ایسے دین وآئین کی ترویج اپنے ذمہ لی ہے ،جوسب کی نجات کاباعث ہے ،لیکن کچھ لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھایا اوربعض نے فائدہ نہیں اٹھایا بعض کے فائدہ نہ اٹھانے سے آپ کی رحمت کے عمومی ہونے پرکوئی اثرنہیں پڑتا اسی طرح کہ جسطرح ایک سازوسامان سے آراستہ ہسپتال جوتمام بیماریوں کی علاج کے لئے بنایاجائے ۔جس میں ہر قسم کی دوائیاں اورماہرطبیب موجودہوں اوراس کےدروازے بلااستثناء سب  کیلئے کھول دے جائیں تو کیا یہ اس معاشرے کے تمام لوگوں کیلئے باعث رحمت ونعمت نہیں ہے؟واقعاًباعث رحمت ونعمت ہے،لیکن اگر کوئی اس سے استفادہ نہ کرے توکسی کے استفادہ نہ کرنےسے اس کے معالج عمومی ہونے پرکوئی اثرنہیں پڑتا۔ پیغمبراکرم ؐ عالمین کیلئے رحمت بن کرآئے ہیں لیکن اگر اس رحمت سے کوئی استفادہ نہ کرے تو کسی کے استفادہ نہ کرنے سے آپ کی رحمت کے عمومی ہونے پرکوئی اثرنہیں پڑتا۔

پیغمبراسلام ؐکاوجودتمام جہانوں کے لئے رحمت ہونا یہ فاعل کی فاعلیت کے مقتضی  ہونے کاپہلو رکھتاہے یعنی پیغمبراسلام ؐمیں یہ صلاحیت وطاقت تھیں کہ آپ لوگوں کے لئے رحمت بنے اورفعلیت تبھی نتیجہ خیزہوتی ہےکہ جب قبول کرنے والے میں قبول کرنے کی صلاحیت وقابلیت بھی موجودہو۔

وَما أَرْسَلْناكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعالَمِينَ:عالمین کی یہ تعبیر ایک ایساوسیع مفہوم رکھتی ہے کہ جس میں تمام ادوارکے تمام انسان شامل ہیں کیونکہ آپ کا وجود قیامت کےتمام انسانوں کیلئے رحمت ہے ،اوررہبروپیشوااورمقتداء بھی ہے ایک لحاظ سے توآپ ؐفرشتوں کے لئے بھی رحمت تھے اس حوالے سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے جوآپ کی رحمت کے عمومی ہونے کی تائید کرتی ہے وہ حدیث یہ ہےکہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی ،کہ وماارسلناک الارحمۃ للعالمین:توپیغمبر اسلامؐ نے جناب جبرئیل سے پوچھا"ھل اصابک من ھذہ الرحمۃ شیء " کیا میری اس رحمت کاکچھ فائدہ تمہیں بھی پہنچا؟ توجناب جبرئیل نے جواب میں کہا:"نعم اني کنت اخشی ٰ عاقبۃ الامر فآمنت بک [1]"میں اپنے انجام سے ڈررہاتھا قرآن مجید میں نازل ہوئی ہے اس آیت میں اپنی حالت سے مطمئن ہوگیاہوں۔

اورآپ پرایمان لایاہوں ۔کیونکہ خداوندعالم نے آپ ؐ کوعالمین کیلئے رحمت بناکربھیجاہے۔آپؐ کاوجودفقط دنیا کی مخلوق کیلئے رحمت نہیں ہے بلکہ آسمانوں میں جتنی مخلوقات ہیں ان کیلئے بھی رحمت ہے ۔

بہرحال موجود ہ دنیا کہ جس کے درودیوارسے فساد تباہی اورظلم وبربریت کی بارشیں ہورہی ہیں جنگوں کے شعلے ہرجگہ بھڑک رہے ہیں اورظالم قوتوں کا چنگال مظلوم مستضعفین کے گلے دبارہاہےاور اس میں جہالت ،بد اخلاقی ،خیانت ،تعصب ، قوم پرستی غروروتکبر،اورظلم واستبدادنے  ہزاروں قسم کی مشکلات اورمصیبتیں  کھڑی کردی ہیں ایسے میں پیغمبراسلام ؐ کے رحمۃ للعالمین ہونے کامفہوم ہردور سے زیادہ آشکاراورواضح ہوتاہے،کیونکہ حضرت نوح ؑ ، حضرت لوط ،حضرت یونس ،جیسے دوسرے انبیاء نے تبلیغ رسالت کے فرائض انجام دینے کے باوجود جب قوم راہ راست پر نہ آئی تو بالآخر ہ اپنی قوم کے لئے بددعا کیں۔ حضرت نوح ؑنے 950 سال تبلیغ رسالت کے فرائض انجام دینے کے باوجود جب قوم راہ راست پر نہ آئی تو خداسے فرمایا :"  قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلاً وَنَهَاراً فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَائِي إِلَّا فِرَاراً  [2]"انھوں نے کہا خدایا !میں اپنی قوم کو دن رات آئین الٰہی کی طرف دعوت دیتا رہا لیکن میری دعوت نے ان کے گریز میں اضافہ ہی کیا  رَّبِّ إِنَّهُمْ عَصَوْنِي وَاتَّبَعُوا مَن لَّمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ إِلَّا خَسَاراً[3] " پرودگارا!انھوں نے میری نافرمانی کی ۔اوران لوگوں کی پیروی کی جن کے مال اوراولاد نے ان کے نقصان میں اضافہ ہی کیاہے لہذا"  رَّبِّ لا تَذَرْ عَلَى الأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا [4]"پروردگارا !روئے زمین پربسنے والے کفار میں سے کسی ایک کو بھی باقی نہ چھو ڑ ،جس کے نتیجے میں خداوند عالم نے سب کو غرق کردیا اسی طرح جناب موسی ٰ نے بھی کافی تبلیغ کی جب لوگ راہ راست پرنہ آئے اورحکم الٰہی کی نافرمانی کی،جس کی وجہ سے خداوندمتعال نے کہا " كُونُواْ قِرَدَةً خَاسِئِينَ[5] "تم سب کے سب ذلت ورسوائی کے ساتھ بندربن جاو،جس کے نتیجے میں نافرمان لو گ بندربن گئے ۔اسی طرح جناب یونس نے بھی اپنی قوم کےلئے بددعاکی ۔لیکن ہمارے پیغمبر ختمی مرتبت حضرت محمدمصطفی ﷺ 23 سال تبلیغ رسالت کے فرائض انجام دیتے رہے اوراسی دوران امت نے پیغمبر اسلام کو بہت ستائی چنانچہ خود پیغمبر مکرم اسلام ﷺ فرماتے ہیں ۔"مااوذي نبي مثل ما اوذیت "[6]جتنی اذیتیں مجھے پہنچائیں گئیں ہیں اتنی اذیتیں کسی اورنبی کو نہیں پہنچائیں ۔لیکن  اس کے باوجود پیغمبر اسلام کے رحم دل کو دیکھے اتنی اذیتیں پہنچانے کے باوجوداپنی امت کیلئے بددعانہیں بلکہ یہی دعاکی ۔" اللھم اھدقومي فانھم لایعلمون "[7]یہ رحمت پیغمبر اسلام ﷺ مصادیق میں سے ایک مصداق ہیں اسی وجہ سے سورہ توبہ میں آپ ؐ کو رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ"[8]کے لقب سے سرفراز فرمایا ہے چنانچہ ایک ایک مقام پر آپ فرماتے ہیں ۔ انماانا رحمۃ مھداۃ "میں اللہ کی طرف سے مخلوق کی طرف بطور ہدیہ بھیجا گیاہوں اورسراپائے رحمت ہوں ایک اورحدیث میں آپ نے فرمایا "ان اللہ بعثنی رحمۃ للعالمین وھدی للعالمین "[9]اللہ تعالیٰ نے مجھے سارے جہانوں کیلئے رحمت وہدایت بناکر بھیجاہے۔

پیغمبراسلام کی تشریف آوری سے پہلے ساراعالم کفر وشرک کی دلدل میں پھنساہوا تھا جب آپ تشریف لائے توسوئے ہوئے انسانوں کو جگایا اورحق کی طرف بلایا تواس وقت دنیا میں ایمان کی ہواچلی اورتوحید کی روشنی پھیلی ۔پیغمبر اسلام نے ہمیشہ رحمت ہی کابر تاو کیا ہے چنانچہ کسی نے پیغمبر اسلام کی خدمت میں عرض کیا یارسول اللہ آپ ؐ مشرکین کیلئےبدعاکیجئےتوآپ نے فرمایا" اني لم ابعث لعانا انما بعثت رحمۃ "[10]میں لعنت کرنے والابناکر نہیں بھیجاگیابلکہ رحمت بناکر بھیجاگیاہوں ۔

سورہ توبہ میں آپ ؐ کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا" عَزِیزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ "تمہیں تکلیف میں دیکھنا پیغمبر اسلام پر شاق وگراں گزرتاہے "  حَرِیصٌ عَلَیْكُمْ "پیغمبر اسلام تمہاری بھلائی کانہایت ہی خواہاں اورآرزومند ہے۔" بِالْمُؤْمِنِینَ رَءُوفٌ رَّحِیمٌ  "اورمومنین کے لئے نہایت ہی شفیق ومہربان ہے اہل ایمان کو اعمال صالحہ سے متصف دیکھنا چاہتا ہے سورہ آل عمران آیت 159 میں مزید آپ کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا"  فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّهِ لِنتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظّاً غَلِيظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَ"[11]اے پیغمبرؐ یہ خداکی مہربانی ہے کہ آپ لوگوں کیلئے نرم مزاج واقع ہوئے ورنہ اگرآپ سخت مزاج اورسخت دل واقع ہوتے تو یہ لوگ آپ سے بھاگ جاتے ،لہذااے پیغمبر ہم نے تجھے مجسم رحمت بناکر بھیجاہے مجموعہ شرافت بناکر بھیجا پیکر صداقت بناکربھیجا اورمنبع سخاوت بناکربھیجا۔نیزتیری رحمت صرف اس امت تک محدودنہیں ہے بلکہ توقیامت تک عالمین  کیلئے رحمت اورایک عطیہ کی حیثیت رکھتاہے ۔                         

 



[1] ۔ تفسیرمجمع البیان ذیل آیۃ وماارسلناک

[2] ورہ نوح آیۃ 5،6

[3] ۔ سورہ نوح آیۃ 21

[4] ۔سورہ نوح آیۃ 26

[5] ۔سورہ بقرہ آیۃ 65

[6] ۔ بحار الأنوار 39:56

[7]۔ مناقب آل أبى طالب، ج 1، ص 215

[8] ۔سورہ توبہ آیۃ 128

[9] ۔اصول کافی جلد سوم

[10] ۔ صحیح مسلم:2599

[11] ۔سورہ آل عمران 159