زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
فهرست کتاب‌‌ لیست کتاب‌ها

2- قیام امام حسین علیہ السلام میں نمازکی ترویج - محمدعادل

قیام امام حسین علیہ السلام میں نمازکی ترویج:

از:محمدعادل

دوسراقسط

مسلم بن عوسجہ اورنماز: آپ نبی اکرمﷺ ،امیرالمومنین علیہ السلام ،امام حسن علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام کے وفادار اورمخلص صحابی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے عبادت گزارتھے۔عاشورارو روزعاشورااوردیگرمواردپر آپ کی عبادت کی طرف بعدمیں اشارہ کریں گے۔ فی الحال ایک روایت نقل کرکےآگے بڑھتے ہیں اوروہ یہ ہے کہ ابن زیادملعون جب کوفہ میں آیا اورکوفہ کے حالات سنھبالے تو دیگرامورکے علاوہ اس کیلئے ایک مہم مسئلہ جناب مسلم بن عقیل کی رہائشگاہ کاپتہ لگانا اورآپ تک رسائی حاصل کرنا تھااس نے اپنے غلام معقل کو یہ ذمہ داری سونپی جوکہ بہت زیادہ چالاک آدمی تھااب تاریخ کہتی ہے کہ یہ شخص کسی کےگھرمیں نہیں گیابلکہ سیدھامسجدکوفہ میں گیایعنی اسے معلوم تھااگرمسلم بن عقیل سے کوئی شیعہ رابطے میں ہوگااوران کابتاسکے گاتووہ وہی ہوگاجومسجدمیں آتاہوگاپس مسجدمیں داخل ہوا اورشیعوں کی جونشانیاں اورعلامات اس کے ذھن میں تھیں ان کے مطابق مسجدمیں موجود لوگوں میں سے محمدوآل محمدکے شیعہ کوڈھونڈنے لگا،اچانک اس کی نگاہ جناب مسلم بن عوسجہ پرپڑی جومسلسل نماز،رکوع،سجوداورقیام میں مشغول تھے اس نے کہاشیعہ حضرات کثرت سے نمازپڑھتے ہیں پس یہ شیعہ ہی ہوگا،لہذااس لعین نے جناب مسلم بن عوسجہ کویہ یقین دہانی کرانے کیلئے کہ گویامیں بھی آل محمدکامخلص شیعہ ہوں آپ کے ساتھ نمازپڑھناشروع کردی آپ سے بڑی خوشی سے ملااوراتنے دنوں تک مسجد میں آکرآپ کے ہمراہ کثرت سےنماز پڑھتارہاکہ جناب مسلم بن عوسجہ کویقین ہوگیاکہ یہ بھی شیعہ ہی ہے اوراس طرح سے یہ لعین جناب مسلم بن عوسجہ  کے توسط سےجناب مسلم بن عقیل کاپتہ لگانے میں کامیاب ہوا۔[1]

یادرہے کہ جناب مسلم بن عوسجہ کاشماران اصحاب پیامبراورمخلص شیعوں میں ہوتا ہے جنہوں نے  قیام امام حسین علیہ السلام کاساتھ دیا اورروز عاشورامیدان کربلامیں امام علیہ السلام کے سامنے اپنی جان قربان کی۔

طفلان مسلم اورنماز:عربی زبان میں طفل بچے کوکہتے ہیں۔اورطلان کامعنی ہے دوبچے یعنی جناب مسلم کے یہ دوفرزندابھی جوان نہیں ہوئے تھے نمازوروزہ ان پرواجب نہیں تھاچونکہ وجوب نمازوروزہ کے لئے بلوغ شرط ہے اوربالغ انسان کوبچہ نہیں کیاجاتالیکن اس کے باوجود تاریخ بتاتی ہے کہ یہ دونوں بچے ایک سال تک ابن زیادکے زندان میں رہے جہاں یہ دونوں بچے دن کوروزہ رکھتے تھے اورجب شہادت کاوقت قریب آیاتوقاتل سے کہا ہمیں چند رکعت نمازپڑھنے دواورپھردریاکے کنارے تیمم کرکے  دونوں بچوں نے چاررکعت نمازپڑھی۔[2]

منزل ذوحسم اورنمازجماعت:قریش مکہ کے امام علیہ السلام کے ساتھ نہ دینے اورکوفہ والوں کے بیعت کرلینے کے بعدامام حسین علیہ السلام نے اپنے قیام کے مرکزکومکہ مکرمہ کے بجائے کوفہ قراردیااورعمرہ مفردہ کے اعمال مکمل کرکے صحرای عرفات کارخ کیاوہاں پر دعائے عرفہ پڑھی اورپھرکوفہ کی جانب نکل پڑے ۔زبالہ کے مقام پرجناب ھانی اورمسلم ابن عقیل رضوان اللہ تعالیٰ علیھما کی شہادت اورکوفہ کے حالات بدلنے کی خبرملی لیکن پھربھی آپ علیہ السلام کوفہ کی جانب بڑھتے رہے یہاں تک کہ ذوحسم کے مقام پر ابن زیاد کی طرف سے امام حسین علیہ السلام کوشہرکوفہ میں آزادانہ داخل ہونے سے روکنے پرمامورایک ہزارسپاہیوں پرمشتمل ایک لشکر نے جس کی سربراہی حربن یزیدریاحی کےپاس تھی امام علیہ السلام کاراستہ روکاجس کے بعدقیام کامرکزکوفہ کےبجائے کربلابن گیااورایسامرکزبناکہ اب جب بھی اورجہاں بھی کوئی مومن آدمی نمازکے لئے کھڑاہوتاہے توخاک کربلااپنے سامنے رکھتاہے اوراسے اپنے لئے سجدہ گاہ قراردیتاہے لہذاکہاجاتاہے کہ قیام امام حسین علیہ السلام نماز سے اورنمازقیام سے جدانہیں لیکن یہاں پرایک مہم نکتے کی طرف توجہ دلاناضروری ہے اوروہ یہ کہ منزل ذوحسم پرجب حرکالشکرامام ؑ کے سامنے آیاتوامام علیہ السلام نے سب سے پہلے توان دشمنوں کوپانی پلایااوردوسراکام یہ کیا کہ جوں ہی نمازظہرکاوقت ہواامام ؑ نے حجاج بن مسروق سے جوکہ اس قیام کے دوران امام ؑ کے کاروان کاموذن تھے سے فرمایاکہ اٹھواذان پڑھو۔

حجاج بن مسروق نے اذان کہی پھرامام ؑ نے آگے بڑھ کر حرسے کہا تم اپنے لشکر کونمازپڑھاو میں اپنے کاروان والوں کونمازپڑھاتاہوں یعنی امام حسین علیہ السلام کی نگاہ میں نمازاتنی ضروری تھی کہ حتی ٰ نہ صرف خود اوراپنے ساتھیوں کےنماز پڑھنےکے لئےفکرمند تھے دشمن بن کرآنے والے لشکرکے نمازپڑھنے کی بھی فکرتھی البتہ حرمیں اتناشعورتھاکہ اس نےکہاہم آپ کی موجودگی میں ہم بھی آپ کے پیچھے نمازپڑھیں گے یوں سب نے امام حسین علیہ السلام کی اقتداء میں نمازظہراداکی پھرامام نے خطبہ دیاجب نمازعصرکاوقت ہواتودوبارہ اذان دی گئی اورسب نے امام علیہ السلام کے پیچھے نمازعصربھی اداکی۔[3]

شب عاشوراورنماز:حرکے ساتھ انجام پانے والے  توافق کے نتیجے میں امام حسین علیہ السلام دومحرم کوپہنچے اورادھر سے ابن زیاد ملعون نے حرکوخط بھیج کرحکم دیاکہ امام ؑ کوبے آب وگیاہ زمین پر روک لے ۔لہذاامام ؑ نے اس جگہ نام معلوم کرنے کے بعد آگے بڑھ کر کرب وبلا نامی سرزمین پر اپنے خیام نصب کئے ادھر سے لشکروں پرلشکر آناشروع ہوگئے جنہوں نےسات محرم کوپانی بند کردیااورنومحرم کی عصرکے بعد اچانک خیام حسینی پرحملہ کردیا۔جب امام حسین علیہ السلام کوحملے کی اطلاع ملی تو حضرت ابوالفضل العباس ؑ سے فرمایا عباس جاو اوراگر ہوسکے تو ان سے اس ایک رات کی مہلت لے کر آو تاکہ ہم اس رات نمازیں پڑھ سکیں ، اپنے اللہ کو یاد کریں اوراس سے استغفارکریں کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتاہے کہ میں حسین ؑ نماز، تلاوت قرآن کریم ،کثرت سےدعاکرنے ،اوراستغفارکاعاشق ہوں۔"انی قد کنت قداحب الصلوٰۃ لہ وتلاوۃ کتابہ وکثرۃ الدعاء والاستغفار"حضرت عباس علمدار علیہ السلام چنداوراصحاب کے ہمراہ گئے اوربڑی مشکل سے ایک رات کی مہلت لے کرآئے۔[4]

اب تاریخ نے اس رات کے جوحالات نقل کئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ امام ؑ نے اس رات کو تین حصوں میں تقسیم کیاایک حصہ اپنے اہلبیت علیہم السلام کیلئے دوسرااپنے باوفااصحاب کیلئے اورتیسراحصہ اپنے پروردگا رکی عبادت کے لئے مختص کیا۔

اوراپنے اہلبیت اوراصحاب کے ساتھ وقت گزارنے کےبعد اپنے خیمہ میں آکر یوں مشغول عبادت ہوئے کہ تاریخ کہتی ہے "فقام اللیل کلہ یصلی ویستغفرویدعوویتفرع، وقام اصحابہ کذالک یصلون ویدعون ویستغفرون"[5] آپ اورآپ کے اصحاب تمام رات نمازیں پڑھتے رہے دعائیں کرتے رہے اوربارگاہ الہیٰ میں اپنی عاجزی اورانکساری کااظہارکرتے رہے ۔حتیٰ بعض روایات میں آیاہے ۔"وبات اصحابہ ولھم دوی کدوی النحل"[6] اصحاب امام حسین علیہ السلام کے خیام سے تمام رات شہد کی مکھیوں کی آوازکی طرح دعاواستغفاراورمناجات کی صدائیں آتی رہی اوراس کانتیجہ یہ ہواکہ لشکریزیدسے بتیس آدمی جوکہ جہنمی ہوچکے تھے نکل کر امام حسین علیہ السلام کی طرف آئے اورجنتی بن گئے اوراصحاب امام کے ہمراہ رکوع وسجودوقیام وتسبیح میں مشغول ہوگئے۔[7]شب عاشوراکے حالات وواقعات سے تمام مومنین اچھی طرح آگاہ ہیں لیکن کرنے کاکام جوہے وہ یہ ہے کہ ہم بھی امام حسین علیہ السلام کی طرح اس رات کوتین حصوں میں تقسیم کیاکریں ایک حصہ امام حسین علیہ السلام آپ کے اہلبیت اوراصحاب پرآنے والے مظالم کویادکرکے رویاکریں ایک حصہ ایک حصہ آپ کے اہلبیت اوراصحاب کی ان خصوصیات کوجاننے کیلئے مختص کریں جن کی وجہ سے انہیں تمام اصحاب کی نسبت باوفااورسب سے اچھے ہونے کی سند ملی تاکہ ہم خود بھی ان اصحاب جیسے بن سکیں اورکل جب ہمارے زمانے کے امام علیہ السلام ظہورہوتواصحاب امام حسین علیہ السلام کی طرح وفادارثابت ہوں اورتیسراحصہ امام اورآپ کے اصحاب کی طرح نماز،دعا، استغفار،اورتلاوت قرآن کریم کیلئے مختص کریں ۔اگرہم ایساکرسکیں تو یقیناً بڑی تیزی سے نہ صرف ہم خود کامیاب ہوں گے بلکہ وہ لوگ بھی جوہم سے دوررہتے ہیں ہماری طرف جذب ہوں گے۔

صبح عاشورااورنماز:کاروان قیام امام حسین علیہ السلام کے رسمی موذن جناب حجاج بن مسروق تھے لیکن جب عاشوراکی صبح طلوع ہوئی توامام علیہ السلام  نے اپنے جوان بیٹے حضرت علی اکبر علیہ السلام سے فرمایا: بیٹااٹھواذان دواورجناب علی اکبرعلیہ السلام جنکالہجہ نبی اکرم ﷺ جیساتھااذان صبح کہی ۔بعض علماء فرماتے ہیں امام چاہتے تھے میری امت کے جوان جب میرے اکبرکویادکرکے روئیں توانہیں میرے اکبرکی اذان صبح یاد آجائے اوران کی نمازصبح قضانہ ہو۔[8]

بہرحال حضرت علی اکبر علیہ السلام نے اذان صبح کہی پھر امام علیہ السلام آگئے بڑھے اورصبح کی نماز،جماعت کے ساتھ اپنے اصحاب کوپڑھائی اوراس کے بعد اپنے اصحاب کوخوشخبری سناتے ہوئے فرمایا!میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سب کو شہادت کی اجازت دے دی ہے اے میرے پیارے اصحاب تقویٰ الٰہی اختیارکرواورآج ان دشمنوں کے مقابلے میں صبرواستقامت کامظاہرہ کرو۔[9] اس کےبعد آپ نے وہ دعاپڑھی جوآج بھی علماء فرماتے ہیں کہ ہرمشکل کے وقت جوشخص یہ دعاپڑھے اس کی مشکل دورہوجائے گی "اللہم انت ثقتی فی کل کرب ورجائی فی کل شدہ ۔۔۔"[10]

ظہرعاشورااورنماز:دس محرم کادن امام حسین علیہ السلام آپ کے اہلبیت اوراصحاب کے لئے دنیوی حوالے سے بہت ہی زیادہ مشکل اور مصیبتوں سے بھراہوادن تھا۔زوال کے وقت تک چند اصحاب شہید بھی ہوچکے تھے اورجوزندہ تھے سب کویقین تھا کہ ابھی چندلمحوں کے بعد ہم بھی شہید ہوجائیں گے جناب ثمامہ بن عمربن عبداللہ صائدی آگے بڑھے اورعرض کیامولا حسین علیہ السلام زندگی کی آخری نمازآپ کی اقتداء میں پڑھنا چاہتاہوں امام علیہ السلام نے سربلند کرکے دیکھازوال ہونے والاتھافرمایا:ابوثمامہ آپ نے نمازکاذکرکیاخداآپ کونمازگزاروں میں سے قراردے اب نمازظہرکی فضیلت کاوقت ہے پھرفرمایادشمن سے بات کرکے تھوڑی دیرکے لئے جنگ روک دی جائے تاکہ ہم نمازپڑھ سکیں حصین بن نمیرملعون نے کہاتمہاری نمازقبول نہیں ہے جناب حبیب بن مظاہرنے اسے جواب دیا اورفرمایا: اے ملعون توسمجھتاہے کہ تیری نمازقبول ہے لیکن خاندان نبوت کی نماز قبول نہیں ۔[11]

اس کے بعد جناب علی اکبرعلیہ السلام نے میدان کربلامیں اذان ظہرکہی نمازکے لئے صفیں درست ہوئیں ۔امام حسین علیہ السلام نے جناب زہیربن قین اورجناب سعیدبن عبداللہ حنفی کواپنے سامنے کھڑاکیااوریوں نماز خوف کی نیت کرکے دورکعت نمازخوف پڑھی ۔لیکن یزیدیوں نے نماز کے دوران بھی اتنے تیربرسائے کہ امام علیہ السلام کے کچھ اصحاب زخمی ہوگئے حتیٰ جناب سعیدبن عبداللہ امام کی طرف آنے والے تیروں کو اپنے جسم پرلیتے لیتے اس قدرخمی ہوئے کہ ادھر نمازتمام ہوئی اورادھرجناب سعیدبھی گرگئے۔[12]

اگرغورکیاجائے تو چودہ سوسال گزرجانے کے بعد بھی جہاں امام حسین علیہ السلام کے پیروکارامام کی روزعاشوراکی نمازظہرکی یادمیں بازاروں چوکوں اورسڑکوں پرنکل کرباجماعت نمازظہرعاشورااداکرتے ہیں وہاں یزیدی لشکرکے پیروکارآج بھی نمازگزاروں پرحملے کرتے ہیں ۔لیکن یہ فرق ضرورہے ۔کہ آج ظہرعاشوراکے وقت نمازپڑھنے والے حسینی لاکھوں کی تعدادمیں ہوتے ہیں جبکہ یزیدی اتنے بزدل ہیں کہ سامنے نہیں آتے چھپ کے حملہ کرتے ہیں ۔یعنی آئے دن حسینیت کامیاب سے کامیاب ترہوتی جارہی ہے اوریزیدیت ناکام سےناکام تر۔

یہاں پرمناسب سمجھتاہوں کہ تمام عزاداروں سے ملتمسانہ ایک گزارش کروں وہ یہ کہ کم ازکم عاشوراکےدن نمازظہرکے وقت کوئی بھی مومن نمازکی صفوں سے باہرنہ ہوں۔

عصرعاشورااورنماز:نمازعصرعاشورانمازظہرسے بھی مشکل تھی چونکہ اب نہ اصحاب میں سے کوئی زندہ تھااورنہ ہی ہاشمی جوانوں میں سے کوئی باقی رہاتھافقط ایک امام سجادتھے جوکہ مصلحت الٰہی کے تحت مریض تھے اورخیام سے باہرنہیں جاسکتے تھے پس امام حسین ؑ تنہاتھے اورصرف تنہانہیں تھے زخموں سے چورچوربھی تھےاب اذان کیلئے علی اکبرؑ تونہ تھے امام علیہ السلام نےخودہی اذان کہی لیکن اب اذان کے جملے کچھ اس طرح سے تھے "ھل من ناصرینصرنا،ھل من معین یعیننا،ھل من ذاب یذب عن حرم رسول اللہ"پھرنمازعصرشروع کی جس کی تکبیرۃ الاحرام زین ذوالجناح سے زمین پرآناتھااورقیام اس وقت کھڑے ہوناتھاجب دشمن نے یہ معلوم کرنے کیلئے کہ آپ زندہ ہیں یاشہیدہوچکے ہیں آپ کے اہل بیت کے خیام پرحملہ کرنے کی کوشش کی نمازعصر کارکوع آپ علیہ السلام کااس وقت جھکناتھاجب سہ شعبہ تیرآپ علیہ السلام کے قلب مقدس میں آکرپیوست ہوا اورآپ نے اسے پشت کی طرف سے نکالناچاہا،اورسجدہ توآپ نے ایسے اندازمیں اداکیاکہ اسے لفظوں میں بیان نہیں کیاجاسکتاجوذکرآپ کی زبان مبارک پرجاری تھاوہ قابل غورہے۔راوی کہتاہے میں نے دیکھاآخری وقت بھی آپ کے لب ہل رہے تھے میں نے کان لگایاتوآوازآرہی تھی۔"بسم اللہ وبااللہ وعلیٰ ملۃ رسول اللہ،الھی رضابقضائک وتسلیماً لامرک لامعبودسواک یاغیاث المستغیثین"اورتشہدوسلام آپ کے سرمبارک کاتن سے جداکیاجانااورآپ کی روح ملکوتی کاپروازکرجاناتھا۔

یہی امام حسین علیہ السلام کی وہ نمازتھی جس نے نمازکوبچالیااوریہی وہ تاریخی سجدہ تھا جس کے متعلق علامہ علی نقی صاحب فرماتے تھے ہمیں شمرکاخنجرتویادہے حسین ؑ کاسجدہ یادنہیں ۔البتہ اب بہت تبدیلی آچکی ہے اورقبلہ صاحب جیسے بزرگ علماء کی محنتوں کے نتیجے میں تمام عزادارنمازامام حسینؑ کی یادمیں نمازبھی پڑھتے ہیں۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہااورنماز:قیام امام حسین علیہ السلام میں حضرت زینب (س)امام ؑ کے ساتھ برابرکی شریک تھیں لہذامقالہ کے آخرمیں حسن اختتام کیلئے آپ سلام اللہ علیہاکی نمازکی طرف بھی اشارہ کردیتے ہیں آپ اتنی بڑی عابدہ تھیں اورقیام کے دوران اس طرح سے نماز کی حفاظت اورترویج کیلئے کوشاں تھیں کہ خودامام حسین علیہ السلام نے بھی خیام سے وداع کے وقت آپ سے فرمایا:"یااختاہ !لاتنسی عندنافلۃ اللیل"[13]یعنی

اے بہن! نمازشب کے وقت مجھے فراموش نہ کرنا یعنی آپ کے شب زندہ دارہونے اورنمازشب بھی قضانہ کرنے کی گواہی امام حسین علیہ السلام نے دے دی۔

حضرت فاطمہ کبریٰ سلام اللہ علیہافرماتی ہیں :شب عاشورامیری پھوپھی زینب علیہاالسلام محراب عبادت میں کھڑے ہوکرمسلسل نمازورازونیازمیں مصروف رہیں اورشام غریبان جوکہ حضرت زینب سلام اللہ علیہاکیلئے دنیا کی سب سے مصیبت بھری رات تھی امام سجادعلیہ السلام اس رات میں بھی آپ کی نمازکے بارے میں فرماتے ہیں میں نے اس رات دیکھا،پھوپھی زینب علیہاالسلام بیٹھ کرنمازپڑھ رہی تھیں ظاہرہے زینب میں کھڑے ہونے کی طاقت نہ تھی لیکن پھربھی نمازقضانہیں ہوئی ۔پھرجب بیبیاں اسیر ہوگئیں اورکوفہ وشام کے درباروں اوربازاروں میں لے جائیں گئیں اورزندانوں میں رکھیں گئیں اس زمانے میں بھی آپ کی نماز کے متعلق امام سجادعلیہ السلام فرماتے ہیں حضرت زینب(س)کی نمازنہ صرف یہ کہ ان دنوں میں قضانہیں ہوئی کم بھی نہیں ہوئی یعنی جونافلہ نمازیں آپ پہلے پڑھتی تھیں دوران اسیری بھی پڑھتی رہیں حتیٰ اپنے حصے کی غذابچوں کودے دیتیں اورخودبھوکے رہنے کی وجہ سے کھڑے ہوکرنمازنہیں پڑھ سکتی تھیں لیکن پھربھی بیٹھ کرنمازشب اداکرتیں۔[14]

 نتیجہ:اس مقالے سے جوبہترین اورمہم ترین نتیجہ لیاجاسکتاہے وہ یہ ہے کہ نمازستون دین ہے نمازسب سے پہلے ہے نمازجماعت پڑھنی چاہیے نمازشیعوں کی پہچان ہے شیعوں کے بچے بھی نمازی ہوتے ہیں امام حسین ؑ کوماننے والے دشمن کوبھی نمازکی دعوت دیتے ہیں اذان ونمازمیں نوجوانوں کوآگے آگے ہوناچاہیے کسی بھی حالت میں حتیٰ عزیزترین انسانوں کی شہادت کےوقت بھی نمازاول وقت میں پڑھناچاہیے اورحتیٰ نمازنافلہ بھی قضانہیں ہونی چاہیے خداوندعالم ہم سب کوامام حسین علیہ السلام ،آپ کے اہل بیت اوراصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت پرعمل پیراہونے کی توفیق عطافرمائیں۔آمین



[1] ۔ اخبارالطوال ،دینوری ص ۲۴۹، حیات فکری وسیاسی امامان شیعہ،رسول جعفریان ص ۱۸۸ ،ومقاتل دیگر

[2] ۔ امالی شیخ صدوق ص ۷۶، بحارالانوارعلامہ مجلسی ج ۴۵ ص ۱۰۰ ومقاتل دیگر

[3] ۔تاریخ الامم والملوک،ابوجعفرمحمدبن جریرطبری ج ۷ ص ۲۹۷ والکامل فی التاریخ ،ابن اثیر ج۳ ص ۲۸۰

[4] ۔ الارشاد،شیخ مفید، ص۲۱۳،وتاریخ طبری ج۴ ص ۳۱۶ والکامل فی التاریخ ،ابن اثیرج۴ ص۵۷ ، والبحارمجلسی ج۴ ص ۲۹۲

[5] ۔ الارشاد،شیخ مفیدص۲۳۰،

[6] ۔ مقتل الخوارزمی ج۱ ص۲۴۹،الفتوح،ابن اعثم ج۵ ص۱۵۰ ،تاریخ طبری ج۳ ص۳۱۴ ، الارشاد،شیخ مفیدص۲۳۰

[7] ۔بحارالانوار ، ج۴۴ ص۳۹۴ واللھوف ص،۴۰

[8] ۔ مجموعہ تقاریرعلامہ نقن صاحب

[9] ۔کامل الزیارات ،ابن قولویہ قمی،ص۱۵۳ بحاالانوار،ج۴۵ ص ۸۷ وموسوعہ کلمات امام الحسین(ع)ص۴۱۴

[10] .تاریخ ابن عساکرص۲۱۳ ،وتاریخ طبری ج۳ ص۳۱۸ الارشادشیخ مفیدص۲۳۳

[11] ۔تاریخ طبری،ابوجعفرمحمدبن جریر،ج۳ ص ۳۲۶ وموسوعہ کلمات امام الحسین(ع)ص۴۴۴، والبحار،علامہ مجلسی ج ۴۵ ص۲۱

[12] ۔بحارالانوار، علامہ مجلسی،ج۴۴ ص۳۱۴،اللھوف،سیدابن طاووس ص ۱۶۵، اعیان الشیعہ سیدمحسن امین عاملی،ج۱ ص۶۰۶ معالی السبطین شیخ محمدمہدی مازندرانی،ج۱ ص۳۶۱

[13] ۔زینب کبریٰ، اخندی ص۵۰ ،وحضرت زینب فروغ تابان کوثرص۸۷

[14] ۔خصائص الزنبیہ،جزائری ص ۲۱۶وریاحین الشریعہ ج۳ ص ۶۱،۶۲ ذبیح اللہ محلاتی